ریاست راجھستان میں ایک کمپنی کی جانب سے لگائے
گئے سولر پینلوں سے پانچ میگا واٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے جو سینکڑوں گھروں
کو روشن کرنے کے لیے کافی ہے
شمسی توانائی کے استعمال میں ڈرامائی اضافہ کرنے کے منصوبے کے آغاز کے
دو سال بعد، بھارت میں اب اس توانائی نے گھروں اور فیکٹریوں کو بجلی کی
فراہمی شروع کر دی ہے۔ شمسی توانائی پر آنے والا کم خرچ، تیل سے حاصل ہونے
والی توانائی کا ایک قابلِ عمل متبادل ہے۔جنوبی ریاست راجھستان کے ضلع ناگور میں ایک کمپنی کی جانب سے لگائے گئے
چمکتے ہو ئے سولر پینلوں سے پانچ میگا واٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ یہ پلانٹ
سرکاری نگرانی میں چل رہا ہے جہاں سے سینکڑوں گاؤں میں گھروں کو بجلی فراہم
ہو رہی ہے۔اس منصوبے کو چلانے والی کمپنی کے سربراہ ، اِندرپریت ودھاوا کا کہنا ہے کہ یہاں سے35 میگا واٹ بجلی پیدا کی جائے گی۔جیسے جیسے کاروباری حضرات اور سرمایہ کار شمسی توانائی میں منافع کو
دیکھ رہے ہیں ، اس جیسے شمسی سٹیشن اب بہت سی دیگر ریاستوں میں بھی لگائے
جارہے ہیں۔ ودھاوا کا کہنا ہے کہ شمسی توانائی کے متعلق ان کے نظریات
تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ ودھاوا کہتے ہیں کہ ، ’اب اچانک لوگ کہنا شروع ہو
گئے ہیں ،کہ ارے ، یہ نہ تو کوئی تجرباتی منصوبہ ہے نہ ہی سائینسی۔ یہ
تو واقعی یہاں آ گیا ہے اور توانائی کے دیگر ذرائع کے سے مقابلہ کر رہا
ہے‘۔
دو سال پہلے تک بھارت شمسی توانائی پیدا نہیں کر رہا تھا، حالانکہ اس ملک میں سال کے تین سو دن ایک چمکتی ہوئی دھوپ رہتی ہے۔ شمسی توانائی پیدا کرنے کے لئے مہنگے آلات کی وجہ سے اس شعبے میں سرمایہ کاری نہیں ہو رہی تھی۔
تاہم ، جب توانائی میں شدید کمی کا سامنا اور کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی کرنے کا دباؤ بڑھا ، تو سنہ 2010میں حکومت نے نیشنل سولر مشن نامی ایک منصوبے کا آغاز کیا۔ حکومت سنہ 2022تک بیس ہزار میگا واٹ بجلی فراہم کرنے کا ہدف رکھتی ہے، اور کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی پر انحصار کم کرنا چاہتی ہے، جن سے بھارت میں زیادہ تر بجلی پیدا ہوتی ہے۔
ٹوبیاس اینگل مائیر ، برِج ٹو انڈیا نامی ایک تحقیقی اور مشاورتی فرم کے سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال، بین الاقوامی سطح پر سولر پینلوں کی قیمتوں میں زبردست کمی کی وجہ سے یہ ہدف اب حاصل ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ اینگل مائیر کے بقول،’ نیشنل سولر مشن کے پہلے سال میں، بین الاقوامی سرمایہ کار اور کمپنیاں اس منصوبے کے بارے میں شکوک کا شکار تھیں۔ انہیں شبہ تھا کہ کیا بھارت ایک پنپتی ہوئی منافع بخش منڈی فراہم کرے گا۔ لیکن اب بین الاقوامی سطح پر شمسی توانائی کے آلات میں تیس فیصد تک کمی کے بعد ان خیالات میں تبدیلی آ رہی ہے‘۔
ابھی تک تو شمسی توانائی کی قیمت ، کوئلے سے پیدا ہونے والی توانائی کے مقابلے میں دگنی ہے۔ لیکن یہ پہلے ہی ڈیزل سے پیدا ہونے والی بجلی کے مقابلے میں سستی ہو چکی ہے۔ ڈیزل سے پیدا ہونے والی بجلی کو بھارتی گھروں اور فیکٹریوں میں عام استعمال کیا جاتا ہے۔شمسی توانائی کے استعمال میں اضافہ بھارت اور دنیا دونوں کے لئے خوش آئند ہے۔ اس سے نہ صرف ملک میں توانائی کے شدید بحران کو روکنے میں مدد ملے گی بلکہ عالمی سطح پر موجود سب سے بڑے مسئلے ، یعنی ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں بھی مدد ملے گی۔
دو سال پہلے تک بھارت شمسی توانائی پیدا نہیں کر رہا تھا، حالانکہ اس ملک میں سال کے تین سو دن ایک چمکتی ہوئی دھوپ رہتی ہے۔ شمسی توانائی پیدا کرنے کے لئے مہنگے آلات کی وجہ سے اس شعبے میں سرمایہ کاری نہیں ہو رہی تھی۔
تاہم ، جب توانائی میں شدید کمی کا سامنا اور کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی کرنے کا دباؤ بڑھا ، تو سنہ 2010میں حکومت نے نیشنل سولر مشن نامی ایک منصوبے کا آغاز کیا۔ حکومت سنہ 2022تک بیس ہزار میگا واٹ بجلی فراہم کرنے کا ہدف رکھتی ہے، اور کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی پر انحصار کم کرنا چاہتی ہے، جن سے بھارت میں زیادہ تر بجلی پیدا ہوتی ہے۔
ٹوبیاس اینگل مائیر ، برِج ٹو انڈیا نامی ایک تحقیقی اور مشاورتی فرم کے سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال، بین الاقوامی سطح پر سولر پینلوں کی قیمتوں میں زبردست کمی کی وجہ سے یہ ہدف اب حاصل ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ اینگل مائیر کے بقول،’ نیشنل سولر مشن کے پہلے سال میں، بین الاقوامی سرمایہ کار اور کمپنیاں اس منصوبے کے بارے میں شکوک کا شکار تھیں۔ انہیں شبہ تھا کہ کیا بھارت ایک پنپتی ہوئی منافع بخش منڈی فراہم کرے گا۔ لیکن اب بین الاقوامی سطح پر شمسی توانائی کے آلات میں تیس فیصد تک کمی کے بعد ان خیالات میں تبدیلی آ رہی ہے‘۔
ابھی تک تو شمسی توانائی کی قیمت ، کوئلے سے پیدا ہونے والی توانائی کے مقابلے میں دگنی ہے۔ لیکن یہ پہلے ہی ڈیزل سے پیدا ہونے والی بجلی کے مقابلے میں سستی ہو چکی ہے۔ ڈیزل سے پیدا ہونے والی بجلی کو بھارتی گھروں اور فیکٹریوں میں عام استعمال کیا جاتا ہے۔شمسی توانائی کے استعمال میں اضافہ بھارت اور دنیا دونوں کے لئے خوش آئند ہے۔ اس سے نہ صرف ملک میں توانائی کے شدید بحران کو روکنے میں مدد ملے گی بلکہ عالمی سطح پر موجود سب سے بڑے مسئلے ، یعنی ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں بھی مدد ملے گی۔
No comments:
Post a Comment