سارہ حماد رضوی | لاہور
پاکستان میں حالیہ فضائی حادثے کے بعد بظاہر ہوائی جہاز کے ذریعے سفر
کرنے والے مسافر قدرے خوفزدہ ہیں اور ملک میں نجی شعبے کے اشتراک سے چلنے
والی ایک ریل سروس کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ان کی ’بزنس ایکسپریس ٹرین‘
کے ذریعے سفر کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان ریلوے کو درپیش شدید مالی اور انتطامی مسائل کے تناظر میں حکومت حال ہی میں کراچی اور لاہور کے درمیان نجی شعبے کی شراکت سے ایک بزنس ایکسپرس ٹرین چلانے کی منظوری دی، جس کا کرایہ تو نسبتاً زیادہ ہے لیکن مسافروں کو ریلوے اسٹیشن پر اور دوران سفر ائیر لائن کی طرز پر سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔
بزنس ایکسپریس ٹرین کے سربراہ ظفر اقبال چوہدری کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں یکے بعد دیگرے پیش آنے والے فضائی حادثات کے بعد لاہور اور کراچی کے درمیان فضائی سفر کو ترجیح دینے والے مسافر قدرے خوفزدہ ہیں اور وہ ہوائی جہاز کے بجائے ریل گاڑی کے سفر کو محفوظ تصور کر رہے ہیں انھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ حادثات کے بعد بزنس ٹرین سے سفر کرنے والے مسافروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے’’اس ریل گاڑی پر سفر کرنے والوں کی تعداد میں بہتری آئی ہے، اس کی یہی وجہ ہے کہ لوگ ابھی بھی ریلوے کے سفر کو محفوظ سفر تصور کرتے ہیں۔‘‘
نجی شعبے کے زیرانتظام چلنے والی پہلی بزنس ٹرین سے پاکستان ریلوے کو ماہانہ 9 کروڑ روپے کی آمدن ہوتی ہے جو مالی مشکلات سے دوچار پاکستان ریلوے کے مسائل کے حل میں قدرے معاون ہے۔
لاہور اور کراچی سے برنس ایکپریس ٹرین روزانہ سہ پہر ساڑھے تین بجے روانہ ہوتی ہے۔ ظفر اقبال چوہدری نے بتایا کہ 9 بوگیوں پر مشتمل ٹرین میں زیادہ سے زیادہ 485 مسافروں کے سفر کرنے کی گنجائش ہے۔ ’’ٹرین کے روزانہ ساٹھ سے ستر فیصد ٹکٹ فروخت ہو رہے ہیں۔‘‘
جمعہ کو کراچی سے اسلام آباد آنے والا نجی ائیر لائن کا طیارہ لینڈنگ سے کچھ دیر قبل ہوائی اڈے کے نزدیک گر کر تباہ ہو گیا جس سے اس میں سوار تمام 127 افراد ہلاک ہوئے جبکہ اس کے دو دن بعد کراچی ائیر پورٹ پر لینڈنگ کے دوران ایک طیارے کا ٹائر پھٹ گیا اور اس کے چند گھنٹوں بعد لاہور کے ہوائی اڈے پر مشہد جانے والے طیارے سے ایندھن کے اخراج کے بعد اس میں آگ بھڑک اٹھنے کا واقعہ بھی پیش آیا تھا۔
یہ تینوں طیارے نجی ائیر لائنز کے تھے جس کے بعد سول ایوی ایشن اتھارٹی نے ہوائی سفر محفوظ بنانے اور مسافروں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے طیاروں کی جانچ پڑتال کا عمل شروع کر رکھا ہے۔
پاکستان ریلوے کو درپیش شدید مالی اور انتطامی مسائل کے تناظر میں حکومت حال ہی میں کراچی اور لاہور کے درمیان نجی شعبے کی شراکت سے ایک بزنس ایکسپرس ٹرین چلانے کی منظوری دی، جس کا کرایہ تو نسبتاً زیادہ ہے لیکن مسافروں کو ریلوے اسٹیشن پر اور دوران سفر ائیر لائن کی طرز پر سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔
بزنس ایکسپریس ٹرین کے سربراہ ظفر اقبال چوہدری کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں یکے بعد دیگرے پیش آنے والے فضائی حادثات کے بعد لاہور اور کراچی کے درمیان فضائی سفر کو ترجیح دینے والے مسافر قدرے خوفزدہ ہیں اور وہ ہوائی جہاز کے بجائے ریل گاڑی کے سفر کو محفوظ تصور کر رہے ہیں انھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ حادثات کے بعد بزنس ٹرین سے سفر کرنے والے مسافروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے’’اس ریل گاڑی پر سفر کرنے والوں کی تعداد میں بہتری آئی ہے، اس کی یہی وجہ ہے کہ لوگ ابھی بھی ریلوے کے سفر کو محفوظ سفر تصور کرتے ہیں۔‘‘
نجی شعبے کے زیرانتظام چلنے والی پہلی بزنس ٹرین سے پاکستان ریلوے کو ماہانہ 9 کروڑ روپے کی آمدن ہوتی ہے جو مالی مشکلات سے دوچار پاکستان ریلوے کے مسائل کے حل میں قدرے معاون ہے۔
لاہور اور کراچی سے برنس ایکپریس ٹرین روزانہ سہ پہر ساڑھے تین بجے روانہ ہوتی ہے۔ ظفر اقبال چوہدری نے بتایا کہ 9 بوگیوں پر مشتمل ٹرین میں زیادہ سے زیادہ 485 مسافروں کے سفر کرنے کی گنجائش ہے۔ ’’ٹرین کے روزانہ ساٹھ سے ستر فیصد ٹکٹ فروخت ہو رہے ہیں۔‘‘
جمعہ کو کراچی سے اسلام آباد آنے والا نجی ائیر لائن کا طیارہ لینڈنگ سے کچھ دیر قبل ہوائی اڈے کے نزدیک گر کر تباہ ہو گیا جس سے اس میں سوار تمام 127 افراد ہلاک ہوئے جبکہ اس کے دو دن بعد کراچی ائیر پورٹ پر لینڈنگ کے دوران ایک طیارے کا ٹائر پھٹ گیا اور اس کے چند گھنٹوں بعد لاہور کے ہوائی اڈے پر مشہد جانے والے طیارے سے ایندھن کے اخراج کے بعد اس میں آگ بھڑک اٹھنے کا واقعہ بھی پیش آیا تھا۔
یہ تینوں طیارے نجی ائیر لائنز کے تھے جس کے بعد سول ایوی ایشن اتھارٹی نے ہوائی سفر محفوظ بنانے اور مسافروں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے طیاروں کی جانچ پڑتال کا عمل شروع کر رکھا ہے۔
No comments:
Post a Comment